تعلیم وتربیت
تعلیم و تربیت انسانی ترقی کے لئے بہت اہم ہے۔ تعلیم و تربیت کے ذریعے انسان کی علمی، فکری، اخلاقی اور جسمانی صلاحیتوں کو بہتر کیا جاتا ہے۔ تعلیم و تربیت کی عملی مثالوں میں مدرسے، کالج، یونیورسٹی، تربیتی ادارے، کورسز، سیمینار، ورکشاپ، ٹریننگ پروگرامز، اور آن لائن تعلیم شامل ہیں۔ تعلیم و تربیت کی بنیاد ایک اچھے تعلیمی نظام پر رکھی جاتی ہے جو عموماً سرکاری یا نجی تعلیمی اداروں کی شکل میں دستیاب ہوتا ہے
بنی آدم از علم باید کمال
نہ از حشمت وجاہ ومال و منال
"بنی آدم کی عزت اور کمال علم ہی کی وجہ سے ہے نہ کہ مال و دولت کی وجہ سے…”
اسی لیے تو کہا گیا ہے کہ؛
"ليت شعرى اىّ شىٔ ادرك من فاته العلم واى شىٔ فانه من ادرك”
ترجمه:
ہائے اللّٰہ! کاش مجھے کوئی بتائے کہ جو علم سے محروم رہا اس نے کیا پایا اور جس کو دولت علم میسر ہے وہ کس چیز سے محروم رہا..!
اب جاننا یہ چاہیے کہ پھر علم ہے کیا، اور فضلیت کس علم کی ہے۔
علم کیا ہے؟
"علم محض معلومات کو کہتے ہیں، جس کا انکشاف انسان کے ذھن میں ہوتا ہے”مگر یہاں ہم مطلقاً اس علم کی بات کریں گے جو کہ باقاعدہ طور پر سیکھا اور سیکھایا جاتا ہے۔
اور جان لیجیے ! کہ کسی بھی ملک یا قوم کی ترقی کی ضمانت اس میں صرف افراد کی تعداد اور زیادتی پر منحصر نہیں، بلکہ اس بات پر کسی بھی ملک اور قوم کی ترقی کا انحصار ہے کہ اس میں ذی شعور صاحبِ علم اور فَہم رکھنے والے افراد کتنے ہیں، اور پھر ان صاحب فَہم و ذَکاء میں سے رِجالِ کار کام کے آدمی کتنے ہیں، فقط گُفتار کے ہی نہیں بلکہ کردار کے غازی کتنے ہیں۔۔۔؟
مزید بریں کہ علم ہی سے انسان کو ذاتی اعتبار سے عزت ملتی ہے، جبکہ بعض لوگوں کے مال، گاڑی، بنگلہ اور بنک بیلنس وغیرہ کی وجہ سے ان کی عزت ہوتی ہے، اور پھر جب یہ چیزیں اس شخص کے پاس نہیں ہوتیں تو لوگ اس کو پوچھتے بھی نہیں،اور اس کے عیب جو پہلے ہونے کے باوجود بھی نظر نہیں آتے تھے اب غریبی و فقیری میں نظر آنے لگتے ہیں۔۔۔!
مگر جہاں تک بات ہے ایک صاحبِ علم کی چاہے اس کے پاس مال و دولت، کوٹھی و کار ہو یا نہ ہو مگر اس کی اپنی ذات کی عزت ہوتی ہے نہ کہ اس کی ملکیت میں آنے والی اشیاء کی وجہ سے اس کی عزت ہوتی ہے، اسی لیے ایک صاحب علم کے پاس اگر مال و دولت کم بھی ہو تو لوگوں اور معاشرے میں اس کی عزت ہوتی ہے، کیونکہ اس کے پاس ایک ایسی چیز ہے جو کہ ایک لازوال دولت ہے، خرچ کرنے سے کم نہیں ہوتی بلکہ اور زیادہ نکھرتی و بڑھتی رہتی ہے۔
حضرت ابنِ عباس رضی اللّٰہ عنھما بیان فرماتے ہیں:
"العلم والمال يستران كل عيب والجهل والفقر يكشفان كل عيب”
ترجمه :
علم اور مال ہر عیب کو چھپا لیتے ہیں اور جہالت و غریبی ہر عیب کو کھول دیتی ہے۔
محترم قارئین!
یاد رکھیں کہ علم وہی ہے جو کہ حق کی طرف لے جائے اور ناحق سے دور رکھے ورنہ وہ جہالت ہی ہے۔
اس لیے تو فرمایا کہ:
علمے کہ راہ حق نہ نماید جہالت است
(~سعدی)
ترجمہ:
"علم اگر حق کی راہ کی طرف نمائندگی نہ کرے تو پھر وہ جہالت ہے”
اس سے مراد یہ ہے کہ اگر انسان محض علم حاصل کر لے مگر اس علم سے نہ ہی وہ اپنی اور دوسروں کی ذات کو فائدہ پہنچا سکے تو پھر وہ جہالت ہی ہے، ایسے علم کا کیا فائدہ جس کے ہوتے ہوئے بھی انسان جاہلوں و ناگواروں اور حیوانوں کی طرح رہا۔
اب جاننا یہ چاہیے کہ علم اور جہالت میں کیا فرق ہے، تاکہ اس سے بچاؤ ممکن ہو، اور اس کے لیے قدرے کوشش کی جاسکے تا کہ شعور و بیداری پیدا ہو۔
علم اور جہالت میں فرق
علم و جہالت ایک دوسرے کے برعکس ہیں۔
١~علم بصارت اور بینائی ہے جبکہ جہالت اندھیرا۔
٢~علم نور اور روشنی ہے جبکہ جہالت ظلمت اور اندھا پن ہے۔
٣~علم ٹھنڈا سایہ ہے جبکہ جہالت تیز دھوپ ہے
٤~علم زندگی ہے جبکہ جہالت موت ہے۔
٥~علم پاکیزگی ہے جبکہ جہالت گندگی اور غلاظت ہے۔
٦~علم خوشبو ہے جبکہ جہالت بدبو ہے۔
٧~علم جنت کا راستہ ہے جبکہ جہالت جہنم کا راستہ ہے۔
اسی لیے علم و صاحب علم کا وقار اور فضیلت علم پر عمل کرنے سے ہے جو کہ تربیت سے ہی ممکن ہے، کیونکہ جب بندہ اپنے علم پر عمل کرتا ہے تو پھر اس کا ضمیر مطمئن اور ظاہر و باطن خوشبو کی طرح مہک اٹھتے ہیں، اور پھر اس کی اپنی زندگی تو خوشبودار ہوتی ہی ہوتی ہے ساتھ میں دوسروں کی زندگی بھی معطر و منور ہو جاتی ہے،اور دلوں کی قدورتیں بھی دور ہوتیں ہیں، معاشرے سنور جاتے ہیں، اور اگر کوئی بھی ایسے صاحب علم کے قریب رہتا ہے جو کہ اپنے علم پہ عمل بھی کرتا ہو تو پھر اس قریب رہنے والی کی بھی دنیا و آخرت سنور جاتی ہے۔
محترم قارئین!
علم کی مثال ایک پودے کی سی ہے اور عمل کی مثال اس پر لگنے والے پھول کی سی ہے…!
کیونکہ جس پودے کو پھول لگتے ہیں خوشبو بھی انہیں میں سے آتی ہے،اور لوگ بھی پھر اس پودے کے قریب آتے ہیں اور فرحت محسوس کرتے ہیں،اور اگر کوئی اس پودے کے پھول اور پتیوں کو ہاتھ لگا لے تو پھر اس کے ہاتھوں میں خوشبو پھیل جاتی ہے۔
مگر یہ کب اور کیسے ممکن ہے، یہ تب ہی ممکن ہے جب بندے اور پودے کی دیکھ بھال اور تربیت ہوتی رہے، تاکہ اس پر پھول کھڑیں نہ کہ یہ بندہ اور پودہ گل سڑ جائیں، پھر اس تربیت کے فقدان کی وجہ سے اپنی اور دوسروں کی ذات کے لیے ازیت کا باعث بنیں۔!
اسی لیے ہمیں علم کے ساتھ تربیت کی بھی اشد ضرورت ہے تاکہ بہار میں پھول کھڑیں نہ کہ تربیت کے نہ ہونے کی وجہ سے قوت، موسم اور شباب ہونے کے باوجود بھی ایک خوشبودار اور سُود مند چیز سے دوسروں کو ازیت پہنچے۔۔!
پھر ہمیں جاننا چاہیے کہ تربیت کیا ہے، اور کیسے ممکن ہے
تربیت کیا ہے؟
تبلغ الشئ الى كماله شيئا فشيئا
ترجمه:
"کسی بھی چیز کو آہستہ آہستہ درجۂ کمال تک پہنچا دینا تربیت کہلاتی ہے”
جیسے بچہ آہستہ آہستہ درجہ کمال کو پہنچ جاتا ہے اور ایک کڑیل جوان بن جاتا ہے۔ اسی طرح سے علم بھی آہستہ آہستہ درجہ کمال تک پہنچتا ہے مگر ان دونوں کا فائدہ تبھی ہوگا جب ان کی وجہ سے روشنیاں اور خوشبوئیں پھیلیں اور اندھیرے چھٹ جائیں ورنہ یہ دونوں چیزیں علم و جوان ازیت ہی ازیت ہیں اپنی اور دوسروں کی ذات کے لیے۔۔۔۔
۔۔۔جاری
*عزیزانِ مَن*
آج سے ہم سلسلہ وار گفتگو کا آغاز کر دیا گیا ہے میں امید کرتا ہوں کہ میری سے یہ چھوٹی سے کوشش آپکے دل و دماغ کے دریچے کھول دے گی اور پھر ان دریچوں سے روشنیاں آپکی کی روح تک جا پہنچیں گی…????
التماس و خبردار ????
کسی بھی دوسرے شخص کو تحریر چوری کرنے یا اپنا نام لکھ کر کسی بھی پلیٹ فارم پہ شیئر کرنے کی ہرگز ہرگز اجازت نہیں کیونکہ یہ دینی و دنیاوی باہر لحاظ سے اصولوں کے خلاف ہے اس کی پکڑ یہاں بھی ہے اور جھوٹے ہونے کی وجہ سے وہاں بھی ہے..!
اس پیج کو فالو کریں لائک اور شئیر کریں